والدین کو بچوں کے ساتھ مطابقت پیدا کرنی چاہیے۔ آزادی کے مستحق ہوں تو آزادی دی جائے۔ اگر کسی بات کا پابند کرنا ہو تو سختی سے پیش آئیں۔ انہیں اچھے بُرے کام بارے شروع سے آگاہ کریں۔ ان کو ایسی مجالس میں بٹھائیں جہاں والدین‘ اساتذہ الغرض ہر چیز کے آداب سکھائے جاتے ہیں۔
انسان کی سیرت و کردار میں بچپن کا زمانہ سب سے اہم ہوتا ہے بچے کی تعلیم و تربیت ماں کی گود سے شروع ہوتی ہے اس لیے والدین کا اولین فرض ہے کہ وہ بچے کے سامنے مثالی سیرت کا نمونہ پیش کریں۔ آج کل جتنے بھی اور مسائل ہیں ان سب سے اہم بچوں کی تعلیم و تربیت ہےکیونکہ انسان کی زندگی کا اصل ’’کھٹیا وٹیا‘‘ آخر اُس کی اولاد ہی ہوتی ہے جو بوؤگے وہی کاٹو گے‘‘ لہٰذا اولاد ہی سرمایہ ہے اگر اُن کی تربیت اچھی کی ہوگی تو دنیا میں بھی کام آئے گی اور آخرت میں بہترین صدقہ جاریہ اور اللہ کی نعمت ثابت ہوگی۔
سب سے پہلے تو ماںباوضو ذکر میں رہے‘ ماں کی سوچوں‘ جذبوں کا اثر بچے پر ہوتا ہے۔ ویسے بھی چند دنوں بعد رمضان شروع ہونے والا ہے‘ ماں روزے سے باوضو ہوگی اور ہروقت ذکر و اذکار میں رہے گی تو ان جذبوںکا بچے کی تربیت پر بہت گہرا اثر پڑے گا۔بچہ جب رمضان میں ماں کو ہرپل ذکرو اذکار اور سحری و افطاری کی تیاری کرتا دیکھے گا تو اس کے لاشعور میں رمضان کی عظمت پیدا ہوگی۔وہ ساری زندگی رمضان کو بھرپور طریقے سے گزارنے کی کوشش کرے گا۔ اگر بچے کو گھر میں ہی رمضان گزارنے کا طریقہ نہ ملا تو اس کی زندگی کے تمام رمضان ایسے ہی گزریں گے جیسے اس کے بچپن میں ماں باپ نے گزارا تھا۔
تو میں بات کررہی تھی پرورش کی۔۔۔ جیسے ہی پرورش شروع کی جائے حلال روزی سے کی جائے‘ حلال روزی سے بچے کی نشوونما ہوگی تو بڑے ہوکرحلال کام کرے گا۔ جیسے نیک اعمال سے روح کو تقویت ملتی ہے ایسے ہی حلال روزی کھلانے سے جسم اور روح تقویت پاتے ہیں۔
دوسرا ماحول کا شخصیت پر بہت گہرا اثر ہوتا ہے ماحول مہذب دینی لحاظ سے ہوگا تو بچہ اچھا شہری اور امتی بنے گا‘ پھر ہی کردار اور اطوار اچھے ہونگے۔ بچوں کے اخلاقی معیار کو ہمیشہ نظر میں رکھنا چاہیے اس کیلئے خود اعلیٰ اخلاق پیش کریں گے تو بچوں میں اعلیٰ اخلاق کی صفت پیدا ہوگی۔ گھرکے اندر اورباہر ہمارا معاملہ صداقت‘ دیانت‘ نرمی‘ خوش کلامی‘ اخلاص‘ خندہ پیشانی‘ صبروتحمل محبت پرمبنی ہونا چاہیے بچہ شروع سے ہی تقلید کرتا ہے لہٰذا یہ اوصاف سکھائے بغیر خود ہی منتقل ہوجائیں گے۔ نہ صرف گھر کے اندر صفائی ، تہذیب کا ماحول پیش کرنا چاہیے بلکہ بچوں کو صفائی ستھرائی کے ساتھ پاکیزگی کا مکمل درس دینا چاہیے۔ ’’صفائی ایمان کا حصہ ہے‘‘ پاکیزگی کے آداب سکھانے چاہئیں تاکہ صفائی کے ساتھ بچوں میں طہارت پاکیزگی کا شعور پیدا ہو۔ یہ اوصاف عظیم اور ہر دلعزیز شخصیت کی تعمیر کرتے ہیں۔ ترش کلامی‘ تلخی سے بچنا چاہیے والدین کی طرح استاد کو بھی اعلیٰ اوصاف عظیم کردار پیش کرنا چاہیے۔ بچوں کو ان کی غلطیوں پر شرمندہ کرنے اور سزا دینے سے پرہیز کرنا چاہیے بلکہ علیحدگی میں ان کو سمجھانے اور پیار محبت سے حوصلہ افزائی کرنے سے بچوں کو احساس کمتری کا شکار ہونے اور مجرم بننے سے بچایا جاسکتا ہے۔بچوں کو صحابہ اکرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین اور اولیاء اکرام رحمۃ اللہ علیہم اجمعین کی زندگیاں سنا کر روشناس کروانا چاہیے۔ اولاد کی اعلیٰ دینی و دنیاوی ترقی کامیابی کیلئے اس دعا سے بڑھ کرکوئی نسخہ نہیں۔ وہ دعا یہ ہے:۔
رَبَّنَا ہَبْ لَنَا مِنْ اَزْوٰجِنَا وَ ذُرِّیّٰتِنَا قُرَّۃَ اَعْیُنٍ وَّ اجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِیْنَ اِمَامًا ﴿فرقان۷۴﴾
والدین کو بچوں کے ساتھ مطابقت پیدا کرنی چاہیے۔ آزادی کے مستحق ہوں تو آزادی دی جائے۔ اگر کسی بات کا پابند کرنا ہو تو حکمت و بصیرت سے پیش آئیں۔ انہیں اچھے بُرے کام بارے شروع سے آگاہ کریں۔ ان کو ایسی مجالس میں بٹھائیں جہاں والدین‘ اساتذہ الغرض ہر چیز کے آداب سکھائے جاتے ہیں۔ بہت ہی شفقت‘ ہمدردی کے سلوک سے مطابقت پیدا کی جائے تاکہ بچہ والدین کے ہرحکم کو آسانی سے مانتا چلا جائے۔
ماں باپ اگر شفیق ہوں گے اور آپس کی تلخی جھگڑوں میں نااتفاقی کا مظاہرہ نہیں کریں گے تو بچوں میں بھی محبت‘ آپس میں مل جل کر رہنا آئے گا۔ بچے کی جو حرکت باپ ناپسند کرے ماں بھی اس کو ناپسند خیال کرے ورنہ بچہ کسی ایک فریق کو دشمن خیال کرے گا پھر اس بچے کی تربیت نامکمل رہ جائے گی۔ باہمی اتفاق سے سمجھانا چاہیے اس طرح مناسب تربیت سے شخصیت بخوبی پروان چڑھتی ہے۔
بچے کو شروع سے ہی اللہ تعالیٰ نے حس عطا کی ہوتی ہے۔ بچوں کو وہ سنائیں اور دکھائیں جو ان کی صحت‘ شخصیت پر اچھے اثرات مرتب کرے۔ غیر شرعی چیزیں دیکھنے‘ سننے سےبچوں کا معصوم نورانی دل بچپن سے ہی آلودہ ہوگیا تو عملی زندگی میں وہی عمل سامنے آئے گا۔۔۔ اپنے بچوں کو آلودہ ماحول دے کر آلودہ ہونے سے صرف اور صرف والدین ہی بچا سکتے ہیں۔بچہ سماجی معاشرتی ماحول میں قدم رکھتا ہے‘ والدین اور اساتذہ کا فرض ہے کہ وہ بچوں کی مصروفیات، صحبت کا خاص خیال رکھیں۔ والدین اور استاد میں رابطہ ہونا چاہیے کہ ان کا بچہ کسی غلط ماحول، صحبت کا شکار تو نہیں یہ کام صرف اور صرف توجہ سے ہوتا ہے بچہ جب یہ خیال کرتا ہے کہ والدین کی میری طرف توجہ ہے یہ توجہ ہی اس کو بری صحبت‘ برے کاموں سے بچاتی ہے۔ والدین کی بچوں پر بے توجہی ہی بچوں کو آوارگی کے ماحول میں لے جاتی ہے مگر حد سے زیادہ ڈانٹ ڈپٹ ،شک‘ بے اطمینانی زیادہ سختی، جبر وتشدد بھی بچوں کو بگاڑ دیتا ہے۔ بچوں کے ذہن کو ٹھیس نہیں پہنچانی چاہیے ان کی نفسیات کو سمجھتے ہوئے ان باتوں سے احتراز کرنا چاہیے جس سے ان کی دل شکنی ہو۔ ہر معاملے میں جذبات کی بجائے ٹھنڈے دل سے غور کے بعد بچوں کو چلایا جائے۔
بچوں کے جذبات‘ خیالات کی قدر کریں کچھ کام کرنے کی آزادی بھی دیں اور کچھ امور میں مشورہ بھی لیں تاکہ ان کے اندر اپنی ذات کا احساس بیدار ہو۔ حوصلہ شکنی سے وہ زندگی کی کشمکش کا مقابلہ نہیں کرسکیں گے۔ روزمرہ زندگی میں ہر شخص مناسب واقفیت حاصل کرکے بچے کی بری عادات روک کر اچھی عادات پیدا کرسکتا ہے اگر اس کے احساسات کی قدرکریں تو ایسا ممکن ہوسکتا ہے۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں